تفسیر اور اصولِ تفسیر کی تدریس

 

از: مولانا اشتیاق احمد قاسمی‏،مدرس دارالعلوم دیوبند

 

قرآنِ کریم کتاب قراء ت ہی نہیں کتابِ ہدایت بھی ہے، اس کی ہدایت کا دائرہ ساری انسانیت کو محیط ہے۔ (بقرہ:۱۸۵) اس میں پہلی امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں، آئندہ رونما ہونے والے حوادث کی آگہی ہے، اور زمانہٴ حال کے مسائل کا حل ہے، اس کی باتیں فیصلہ کن ہیں، یہ دل لگی کی باتیں نہیں ہیں، جو سرکش اسے چھوڑے گا اللہ تعالیٰ اس کو توڑدیں گے اور جو قرآن کریم سے ہٹ کر ہدایت تلاش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو گمراہ کردیں گے، یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے، یہ حکمت بھرا نصیحت نامہ ہے اور یہ سیدھا راستہ ہے۔ (ترمذی، باب فضائل قرآن، حدیث:۲۹۱۸)

          قرآنِ کریم کے بعض مضامین تو بہت آسان ہیں، سب سمجھ سکتے ہیں، چند احکام صرف اہلِ علم ہی سمجھ سکتے ہیں، اور بعض مضامین اتنے اونچے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ان کا علم ہے، مثلاً حروفِ مقطعات کا مفہوم۔

          علامہ سیوطی نے الاتقافی علوم القرآن (ص:۴۴۴) میں قرآن پاک کی آیتوں کے چار درجے بیان فرمائے ہیں:

          ۱- قرآن کی بعض آیات تو ایسی ہیں جن کو عرب محض عربی دانی کی وجہ سے سمجھ لیتے ہیں۔

          ۲- بعض آیات ایسی ہیں جن کا سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، اور ہر ایک سمجھ بھی سکتا ہے۔

          ۳-بعض آیات کا مطلب صرف علماء ہی سمجھ سکتے ہیں، دوسرے کے بس کی بات نہیں۔

          ۴- بعض آیتوں کا مفہوم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔

تفسیر کے مراحل:

          ہمارے مدارس میں قرآنِ پاک کی تفسیرتین مرحلوں میں پڑھائی جاتی ہے، پہلے ترجمہٴ قرآن مجید، پھر جلالین شریف پڑھائی جاتی ہے اور بالکل اخیر میں تکمیل تفسیر ہے، جسے دورہٴ تفسیر یا تخصص فی التفسیر بھی کہا جاتا ہے۔

پہلا مرحلہ:

          ہمارے نصاب کی خصوصیت ہے کہ قرآنِ پاک کا ترجمہ مکمل پڑھایا جاتا ہے، اس میں بھی تدریج ہے، پورے قرآنِ پاک کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔

سوم عربی میں ترجمہٴ قرآن مجید:

          عربی سوم سے اس کی ابتداء ہوتی ہے؛ اس لیے کہ اس سے پہلے دوسالوں میں نحو، صرف اور عربی زبان کی ابتدائی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، سوم عربی میں وہ اس لائق ہوجاتے ہیں کہ ان کو قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھایا جائے، اگر طلبہ نحو، صرف اور عربی زبان میں کمزور ہوں تو انھیں ہرگز ترقی نہ دی جائے، یہ ان کے حق میں بہترہے،اس کے بہتر ہونے کا احساس ان کو دلایا جائے۔ اپنے یہاں کے مدارس میں عموماً اور دارالعلوم دیوبند میں خصوصاً سوم عربی کے طلبہ کو سورہٴ ق سے اخیر قرآنِ کریم تک ترجمہ پڑھایا جاتا ہے؛ مگر ترجمہ، پارہٴ عم سے شروع کیا جاتا ہے، جب یہ پارہ مکمل ہوجاتا ہے تو سورہٴ ق سے ترجمہ شروع ہوتا ہے، پہلی ششماہی میں سوا پارہ یا ڈیڑھ پارہ ہی ترجمہ ہوپاتاہے؛ چوں کہ شروع میں ترجمہ سے مناسبت نہیں ہوتی؛ اس لیے شروع میں اساتذہ دوچار آیتیں ہی پڑھائیں تو بہتر ہے، اور پڑھانے کا انداز یہ ہوکہ پہلے مشکل لغات لکھائے جائیں، لفظ کا مادّہ، صیغہ، واحد، جمع، تعلیل، تخفیف اور صلات وغیرہ بس اتنا ہی بیان کرنا چاہیے جتنے کی اس جگہ ضرورت ہو۔ پھر ترجمہ لفظی کرنا چاہیے؛ مگر نہایت ہی قدیم ترجمہ تحت اللفظ سے احتراز کرنا چاہیے۔ بعض اساتذہ حضرت تھانوی کا ترجمہ کرتے ہیں یہ بھی ٹھیک ہے؛ اس لیے کہ اس ترجمہ میں مضمون بھی واضح ہوجاتا ہے، مولانا عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ بھی عمدہ ہے، پھر خلاصہٴ تفسیر نہایت ہی اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہیے، اگر آیت کا سمجھنا شانِ نزول پر موقوف ہوتو اس کو ضرور بیان کرنا چاہیے، واقعات میں صحیح ترین واقعہ کو دیکھ کر اطمینان کرکے بیان کرنا چاہیے، ورنہ اسرائیلیات میں پڑنے کا شدید خطرہ باقی رہ جائے گا، جس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے ایک سے زائد اقوال ہوں، ان میں سب سے راجح قول ہی طلبہ کو بتایا جائے؛ تاکہ اطمینان اور اعتماد کے ساتھ یاد کرسکیں۔

          کبھی چند اقوال بتادینے کا نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ طلبہ ایک قول بھی یاد نہیں کرتے ناچیز کو پہلے سال دارالعلوم دیوبند میں شرح مائة عامل پڑھاتے ہوئے یہ تجربہ ہوا، ایک جملہ کی دوترکیبیں کردیں، طلبہ نے ایک بھی یاد نہ کی۔

          سوم عربی میں بعض اساتذہ ترکیب میں زنجیری انداز اختیار کرتے ہیں، اور بعض صرف اعراب اور وجہ اعراب کے بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، اگر طلبہ کی نحوی استعداد پختہ ہے، شرح مائة عامل انھوں نے اچھی طرح پڑھی ہے تو صرف وجہِ اعراب بتادینا بھی کافی ہے، زنجیری ترکیب ضروری نہیں۔

          دارالعلوم دیوبند میں عم پارہ میں ترکیب پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور سبق کی مقدار بہت کم رہتی ہے، پوری ششماہی میں صرف ایک سوا پارہ پر محنت مرکوز رہتی ہے، سورئہ ق سے مرسلات تک دوسری ششماہی میں پڑھاتے ہیں۔

چہارم عربی میں ترجمہٴ قرآن مجید:

          جب یہ طلبہ چہارم عربی میں آتے ہیں تو ان کو قرآن کی مشکل لغات، ترکیب اور خلاصہ یاد کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے؛ اس لیے چہارم میں نصاب کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اور سورہٴ یوسف سے سورئہ حجرات تک یہ ترجمہ پڑھتے ہیں، ان میں اکثر سورتیں مکی ہیں، مضامین مشکل نہیں ہیں؛ اس لیے ترجمہ، اعراب اور لغات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، یہاں بھی اندازِ بیان آسان اختیار کیا جائے، اور سوم عربی میں جن باتوں کا خیال کیاگیا ہے، ان کو ملحوظ رکھا جائے، لغات واعراب میں صرف اتنا ہی بتایا جائے جتنا ان کو ہضم ہوجائے، بعض اساتذہ اختصار کا خیال نہیں رکھتے ہیں؛ اس لیے ان کا درس بافیض نہیں ہوپاتا۔

          مدنی سورتیں درج ذیل ہیں: حج، نور، احزاب، محمد، فتح اور حجرات ان میں احکام ہیں، آیات سے مستنبط ہونے والے احکام کو بھی نہایت ہی دقتِ نظر سے پڑھایا جائے۔

پنجم عربی میں ترجمہٴ قرآن مجید:

          پنجم عربی تک طلبہ کو ترجمہٴ قرآن سے اچھی خاصی مناسبت ہوجاتی ہے، اس مرحلہ میں شروع سے سورئہ ہود تک ترجمہ پڑھایا جاتا ہے، ان میں اکثر حصہ احکام ومسائل کاہے؛ اس لیے مسائل اچھی طرح بیان کیے جائیں، جہاں اعراب مشکل ہو وہیں ترکیب بتائی جائے؛ البتہ لغات پر توجہ دینا یہاں بھی ضروری ہے۔

          مسائل بتاتے ہوئے اساتذہ زیادہ طویل کلام نہ کریں، بس اتنے ہی مسائل بتائیں جو آیت سے مستنبط ہورہے ہوں، تفصیل ہدایہ کے لیے چھوڑدیں، اگر کسی آیت کی چند تفسیریں ہوں تو راجح کو علت کے ساتھ بیان کردیں، لمبی تقریریں طلبہ کے لیے مفید نہیں ہوتیں۔

          چہارم تک آیات میں ادب اور بلاغت ہرگز بیان نہ کریں، پنجم عربی میں دروس البلاغہ یا تلخیص المفتاح پڑھے ہوتے ہیں؛ اس لیے علم بیان، معانی اور بدیع کی مثالیں بیان کرنے میں بھی حرج نہیں۔

ترجمہٴ قرآن دارالعلوم دیوبند کے طرز پر پڑھانا چاہیے:

          دارالعلوم دیوبند کے طرز پر پورے قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھانا چاہیے اور نصاب کی تکمیل کا خیال رکھنا چاہیے، نصاب کا پورا نہ ہونا بہت بڑا عیب ہے، طلبہ میں تشنگی باقی رہ جاتی ہے، وہ زندگی بھر ختم نہیں ہوتی۔

تذکیری آیات کی تدریس:

          آج کا ماحول فسق پسند ہے؛ ہرطرف گناہ اور گناہ کی طرف متوجہ کرنے والے اسباب کی بہتات ہے؛ اس لیے جن آیات میں اللہ رب العزت نے راست طور پر انسانی قلوب کو متوجہ کیا ہے، مختلف قسم کی ظاہری اور باطنی خرابی کو بیان کرکے ان سے بچنے کی تلقین کی ہے، ان آیات کو پڑھاتے وقت طلبہ کو باطن کی طرف متوجہ کرنا چاہیے، اس طرح امت کے نونہالوں کا تزکیہ ہوگا اور وہ امت کے لیے پاکیزہ قیادت کے علم بردار بن سکیں گے۔

تطبیق آیات:

          آیاتِ قرآنی کا تعلق انسانی زندگی سے نہایت ہی قریب کا ہے، زندگی کی نشیب وفراز سے متعلق آیات موجود ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو روزمرہ کی زندگی پر منطبق کیا جائے، بہت سی آیات واضح ہیں، ہمارے مدارس کے طلبہ کو برمحل آیات پڑھنے کی عادت نہیں ہوتی؛ اس لیے کبھی کبھار اساتذہ طلبہ سے سوال کریں کہ فلاں بات سے متعلق آیت پڑھو؟ فلاں حکم کی آیت کون سی ہے؟ یہ بات پیش آئی ہے،اس سے متعلق کون سی آیت ہے؟ اس طرح طلبہ میں برجستہ آیات پڑھنے اور ان سے استدلال کی عادت ہوگی، حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری زیدمجدہ نے منتخب آیات واحادیث کے چھوٹے چھوٹے تین اجزاء محفوظات کے نام سے تیار کیے ہیں، ان کا مقصد بھی یہی ہے، ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ بہرکیف! تطبیق آیات کا ملکہ، مشق وتمرین سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

دوسرا مرحلہ:

          دوسرے مرحلہ میں عام طور سے ہمارے مدارس میں جلالین شریف پڑھائی جاتی ہے، اس مرحلہ میں طلبہ ایک حدتک قرآنِ کریم کے مضامین سے واقف ہوتے ہیں؛ اس لیے اساتذہ محض آیات کی تفہیمی تقریر نہ کریں؛ بلکہ پوری توجہ کتاب کے حل پر مرکوز رکھیں، جب کتاب ان کے قابو میں ہوگی تو تفصیل وہ خود ہی کرلیں گے، اس کتاب میں درج ذیل باتوں پر توجہ دی جائے:

          ۱- فوائدِ قیود: علامہ سیوطی اورمحلی کے بڑھائے ہوئے الفاظ کی وجہ بتائی جائے، کہیں اعراب کی تعیین ہے، کہیں ترجمہ ہے، کہیں محذوف کی وضاحت ہے، کہیں تعلیل ہے، کہیں قراء تِ مشہورہ اور کہیں قراء تِ شاذہ کی وضاحت ہے، کہیں مسئلہٴ شافعی کا بیان ہے، کہیں شانِ نزول ہے، کہیں قصہ ہے اور کہیں ناسخ ومنسوخ کی تعیین ہے۔

          غرض یہ کہ جہاں جو بات بیان کی گئی ہے، استاذ صاحب کی ذمہ داری ہے کہ اسے حل کریں، اور طالب علم کو مطمئن کریں، جب تک اطمینان نہ ہو سبق نہ پڑھائیں، اور طلبہ کو ہر تفسیری اضافہ کی وجہ پوچھنے کی اجازت ہو، ان کے سوال پر ڈانٹا نہ جائے اور نہ الزامی جواب پر اکتفاء کیا جائے؛ بلکہ استاذ صاحب سوال کو سنجیدگی سے سنیں، اگر جواب مستحضر نہ ہو تو بعد میں جواب دینے کا وعدہ کریں اور مطالعہ کریں، اس موقع سے یہ خیال رہے کہ سوال کرنے والے طلبہ میرے علم میں اضافے کا سبب ہیں، ذہین طلبہ کی وجہ سے مطالعہ کی توفیق ہوتی ہے اور علم میں پختگی حاصل ہوتی ہے، جس طرح ہمارے اساتذہ نے ہمارے ساتھ ہمدردی کی ہے، ہمیں بھی طلبہ کے ساتھ ویسی ہی ہمدردی کرنی چاہیے، یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالات کی نگرانی کرنے والے پروفیسران کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اندازہ ہوا کہ وہ طلبہ کی الجھنوں کو نہایت ہی ہمدردی سے دور کرتے ہیں اور تحقیق میں طلبہ کاپورا تعاون کرتے ہیں؛ بلکہ عملی اشتراک سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

          ۲- راجح کی تعیین: علامہ سیوطی اور محلی نے جس تفسیر کو اختیار کیا ہے، وہ ہرجگہ راجح نہیں ہے، کہیں کہیں مرجوح بھی ہے، اس کی تعیین کی ذمہ داری استاذ کی ہے، انھیں پہلے اکابر علماء کی تفسیریں دیکھنی چاہئیں، پھر بڑی تفسیروں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، مثلاً ابن کثیر، روح المعانی، مظہری اور مدارک وغیرہ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دویاچند اقوال میں سے ہر ایک درست ہوتے ہیں، ان میں فتویٰ کی طرح کسی ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت نہیں۔

          ۳- اگر کوئی عقلی اعتراض ہوتو اس کے لیے تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہیے، تفسیر کبیر بہت مفید ہے، اکثر عقلی اعتراضات اس میں حل ہوجاتے ہیں۔

          ۴- کہیں کہیں جلالین میں اسرائیلیات درآئی ہیں، ان کی نشاندہی بہت ضروری ہے،اس جگہ صحیح تفسیر کرنا،استاذ کی ذمہ داری ہے، اکابرعلماء کی تفسیر کے ساتھ ابن کثیر کا دیکھنا بہت مفید ہوتا ہے، تفسیر بالروایہ میں ابن کثیر سب سے اہم تفسیر ہے۔

          ۵- شروع میں ہی طلبہ کو بتادیا جائے کہ علامہ سیوطی اور محلی دونوں شافعی ہیں، آیات سے اپنے مسلک کے مطابق تفسیر اخذ کرتے ہیں، ان تمام مقامات پر سب سے پہلے شافعی مسلک کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے،اوراگر شوافع کی فقہی کتابیں میسر ہوں تو براہِ راست ان میں مسائل دیکھنے چاہئیں، پھر اپنے مسلک کی کتاب سے مسائل دیکھ کر بیان کیے جائیں، شوافع کے استدلال کا جواب دینا بھی ضروری ہے، ورنہ حنفی طلبہ کے ذہن میں اشکال باقی رہ جائے گا اور یہ بہتر نہیں۔

          ۶- جلالین کا حاشیہ بہت عمدہ ہے،اس کی عمدگی کا اعتراف بہت سے علماء نے کیا ہے؛ مگر حاشیہ لکھنے والے کون بزرگ ہیں؟اس کا علم نہیں، انھوں نے محض اخلاص کی بنیاد پر اپنا نام تک نہیں لکھا؛ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ مسلکاً حنفی ہیں۔ تفسیر کے بہت سے اشکالات اچھی طرح حل کردیتے ہیں؛ لیکن واقعات میں اسرائیلیات بھی خوب لیتے ہیں، اساتذہ کو ایسے مقامات پر بیدارمغزی سے کام لینا چاہیے، ان کی رو میں خود کو بہانا نہیں چاہیے۔

          ۷- جلالین میں قراء ات بھی ہیں، قراء تِ مشہورہ کے ساتھ شاذّہ کو بھی ذکر کرتے ہیں، اساتذہ کو ذکر کردہ قراء ت کو اچھی طرح تحقیق کرکے طلبہ کو بتانا چاہیے، اس کے لیے حاشیة الجمل کافی ہے، اس کے علاوہ السراج المنیر، روح المعانی، مظہری، وغیرہ کا دیکھنا بھی مفید ہے، ہر قراء ت کے لحاظ سے آیت کی مختصر تفسیر ضرور کردینی چاہیے؛ بلکہ لکھوادینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

          جلالین میں ایک مشکل یہ ہے کہ وہ قراء ت میں ترتیب کا لحاظ نہیں کرتے ہیں، قرآنِ پاک کے رائج نسخہ میں جو آیت ہے،اس کی قراء ت کبھی بعد میں اور دوسری قراء ت پہلے لکھ دیتے ہیں، ایسی جگہوں پر طالبِ علم تشویش کا شکارہوتا ہے؛ اس لیے اساتذہ کو وضاحت کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

          جلالین میں ہر جگہ لہجات کو بیان نہیں کرتے ہیں؛ مگر جہاں دو ہمزہ جمع ہوجائیں ان کے لہجات ضرور لکھتے ہیں، ایسی جگہوں میں اساتذہ اگر قراء تِ سبعہ نہ پڑھے ہوں تو کوئی حرج نہیں، کسی جیدقاری سے ادائیگی سیکھ لیں، پھر اداکریں، محض عبارت دیکھ کر الٹا سیدھا ادا نہ کریں، یہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

          ۸- ناسخ ومنسوخ کے بارے میں طلبہ کے ذہن میں شروع سے ہی یہ بات بٹھادینا ضروری ہے کہ قرآنِ پاک کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، پورا قرآن مجید محکم ہے، اپنے بزرگوں میں سے حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی کا یہی موقف ہے، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کا رجحان بھی یہی ہے، حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کی عبارت سے سمجھ میں آتا ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب اگر یک لخت کہہ دیتے کہ کوئی آیت منسوخ نہیں، تو لوگ نہ مانتے؛ اس لیے شاہ صاحب قارئین کو تدریجاً اس نظریہ تک لے جانا چاہتے ہیں کہ موجودہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ (الخیرالکثیر، ص:۲۷۵)

          الفوز الکبیر کی شرح میں حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے آیاتِ قرآنی کے محکم اور غیرمنسوخ ہونے والے موقف کو اختیار فرمایا ہے، حضرت مفتی محمدامین صاحب استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند نے بھی الخیرالکثیر میں اسی موقف کی تائید کی ہے، اور جن آیتوں کو علماء نے منسوخ کہا ہے، ان سب کی ایسی واضح تفسیر کی ہے جس سے منسوخ نہ ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔

          علامہ سیوطی کے نزدیک اگرچہ اکیس آیتیں منسوخ ہیں؛ مگر جلالین میں ڈھیرساری آیتوں کو منسوخ بتایا ہے، شاید متقدمین کے نظریہ کے مطابق ایسا کیا ہے؛ اس لیے پہلے اساتذہ نسخ کی بحث سمجھادیں، متقدمین اورمتاخرین کی اصطلاح کا فرق بھی بتادیں اور ان جگہوں میں ایسی تفسیر کریں کہ طلبہ کا اشکال دور ہوجائے۔

          ۹- اسی مرحلہ میں یہ بھی بتادینا ضروری ہے کہ ہر آیت کا ”شانِ نزول“ ضروری نہیں، صرف انھیں آیتوں کا شانِ نزول جاننا ضروری ہے، جہاں بغیر شانِ نزول کے آیت کا سمجھنا مشکل ہو، مثلاً غزوئہ بدر وغیرہ کی آیات۔ (انفال۴۲)

جلالین کے لیے معاون کتابیں:

          قرآنِ پاک کے ترجمے اور اس کی تفسیریں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیاجاسکتا، ساری تفسیروں کا مطالعہ ممکن نہیں؛ جب دارالعلوم حیدرآباد میں راقم الحروف سے کتابیں متعلق ہوئیں تو جلالین شریف کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں تھی، جس میں جی لگتا، میں نے مفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ کو فون پر بتایا کہ ساری کتابیں اوّل، دوم اور سوم کی ہیں، صرف ایک جلالین مطالعہ کے لائق ہے، میں کیا کروں؟ جی نہیں لگ رہا ہے، حضرت نے برجستہ فرمایاکہ یہ تو بہت اچھا موقع ہے کہ قرآن مجید سے مناسبت پیدا ہوجائے گی اور یہ بہت بڑی نعمت ہے، تم اس کی متعلقات کتب خانہ سے نکال کر ذوق وشوق سے مطالعہ شروع کردو، جی لگنے لگے گا، میں کتب خانہ گیا اور ترسٹھ کتابیں نکال لایا، وہاں کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا، کمرے میں بیٹھا پڑھتا رہتا تھا، مختلف ذوق رکھنے والے مفسرین کی کتابیں دیکھتا تھا؛ لیکن ہدایت کے مطابق طلبہ کے لیے باتیں ترتیب دے کر جاتا، عبارت سے متعلق بس ضروری باتیں ہی بیان کرتا تھا؛ اس طرح ذی الحجہ کا مہینہ آگیا، اور دیوبند آنا ہوا، یہاں حضرت مفتی صاحب سے پوچھا کہ تفسیر کی کتابیں تو بے شمار ہیں، مجھے جلالین کے لیے کون کون سی کتابیں دیکھنی چاہئیں، فرمایا ”حاشیة الجمل“ سے جلالین حل کیا کرو پھراپنے کسی بزرگ کی تفسیر دیکھ لیا کرو، اتنا کافی ہے۔

          یہ واقعہ ہے کہ جلالین کی مشکلات حاشیة الجمل میں حل ہوجاتی ہیں، صاوی بھی جمل کے شاگرد ہیں، اس میں جمل کا اختصار ہے، بار بار کے مقابلے سے میں نے یہ سمجھا ہے، کہا جاتا ہے کہ صاوی بدعتی ہیں، ان کے حوالے سے متعدد بدعات کتابوں میں ذکر کی گئی ہیں۔ راقم الحروف ان کے ساتھ علامہ شوکانی کی فتح القدیر، زمخشری کی کشاف اور خطیب کی سراج منیر کے ساتھ خازن اور مدارک بھی دیکھتا تھا اور استفادہ کرتا تھا، قرآن مجید کے اردو تراجم میں جتنے تراجم میسر ہوئے، سب کو اس لیے دیکھا کہ ایک تقابلی نظر ہوجائے، اس دوران بہت سوں سے عقیدت بڑھی اور بہت سوں سے بدگمان ہوگیا۔

          جلالین کے لیے اردو شروحات دیکھنے کی نوبت نہیں آئی؛ البتہ دو تین مرتبہ مشکل مقام پر ”کمالین“ کو اٹھایا، اتفاق سے دو جگہ ترجمہ بھی نہیں کیاگیا تھا، اور ایک جگہ ترجمہ تو تھا؛ مگر اس سے عبارت حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی،اس کے بعد سے کبھی نہ دیکھا، ”جمالین“ اس وقت طبع ہوئی جب چار پانچ سال جلالین پڑھا چکا تھا؛ اس سے استفادہ کا موقع نہیں ملا؛ البتہ ایک بار تعارف لکھنے کے لیے دیکھا، بہ ظاہر اچھی شرح معلوم ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ شارح نے کتاب کے حل کرنے میں بڑی عرق ریزی کی ہے۔

تفسیر کی منتخب کتابیں:

          حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی نے عربی تفاسیر کی پانچ کتابوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر کوئی ان کو دیکھ لے تو ان شاء اللہ کسی اور کے دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، وہ کتابیں درج ذیل ہیں:

          ۱- تفسیر ابن کثیر             ۲- تفسیر کبیر                ۳- تفسیر أبی سعود

          ۴- تفسیر قرطبی              ۵- روح المعانی

          ”ابن کثیر“ تفسیر بالروایہ میں لاجواب ہے، یہ احادیث صحیحہ، ضعیفہ اور موضوعہ کی تعیین کردیتے ہیں، اسرائیلیات میں بہت محتاط ہیں۔

          ”تفسیر کبیر“ میں امام رازی نے نہایت ہی بسط و تفصیل سے کلام کیا ہے، اس میں احکام شرعیہ کا بیان ہے، فرقِ باطلہ کی تردید ہے، ربط آیات کو بھی نہایت ہی بے تکلف بیان فرماتے ہیں، اس تفسیر میں تفسیری اشکالات حل ہوجاتے ہیں، ہاں! یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس میں رطب ویابس روایات بھی خوب ہیں؛ چوں کہ واعظ تھے؛ اس لیے روایات میں غَضِّ بصر سے کام لیا ہے۔

          ”تفسیر ابی سعود“ کے مطالعہ کی رہنمائی مجھ کو حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن اعظمی مدظلہ استاذ حدیث، مدیر ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند نے کی، یہ تفسیر بھی نہایت عمدہ ہے، مختصر ہے،اس میں ربط آیات، فقہی احکام، ادب اور بلاغت بہت سی چیزیں قارئین کے لیے کشش کا باعث ہیں۔

          ”تفسیر قرطبی“ بھی کافی عمدہ ہے، اس میں روز مرہ کی ہدایات، تذکیری آیات پر کافی تفصیلی گفتگو ملتی ہے، مشکل الفاظ کو حل کیا ہے، اعراب کی تعیین بھی کی ہے۔

          ”روح المعانی“ کے لیے بس اتنا کہنا کافی ہے کہ اس میں متقدمین کی جملہ تفاسیر کا عطر اکٹھا کیاگیا ہے، اسلامی کتب خانوں میں اس سے عمدہ تفسیر موجود نہیں، لغت، نحو، صرف، قراء ت، بلاغت، فقہ، عقائد، فلسفہ، ہیأت اور تصوف ہرچیز کو بیان کیا ہے، روایات میں بہت محتاط ہیں، بعد کے سارے مفسرین ان کے خوشہ چیں ہیں۔

تیسرا مرحلہ:

          اس مرحلہ کو تکمیل تفسیر، تخصص فی التفسیر اور دورہٴ تفسیر بھی کہتے ہیں، ہندوستان کے سارے مدارس کا حال تو مجھے معلوم نہیں، صرف دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم حیدرآباد کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا ہے، دارالعلوم دیوبند میں دو تفسیر اور ایک اصولِ تفسیر کی کتاب داخلِ نصاب ہے، ابن کثیر میں سورہٴ صافات اور ستائیسواں پارہ مکمل پڑھاتے ہیں، بیضاوی میں سورہٴ آل عمران مکمل اور سورہٴ فاتحہ کے ساتھ سورہٴ بقرہ آدھ پارہ داخل نصاب ہے، اساتذہٴ کرام ان دونوں تفسیروں کو سبقاً سبقاً پڑھاتے ہیں، عملی کوئی کام نہیں لیا جاتا؛ اس لیے یہ درجہ بہت فعال نہیں ہے۔

          دارالعلوم حیدرآباد میں تخصص فی التفسیر کا شعبہ کھلا، اس میں تفسیر کی درج ذیل کتابیں داخلِ نصاب کی گئیں: مختصر ابن کثیر، فتح القدیر للشوکانی، تفسیراتِ احمدیہ، تاویل مشکل القرآن لابن قتیبہ، مشکلات القرآن علامہ کشمیری، مناہل العرفان۔

          وہاں مختلف انداز سے لکھنے کا کام بھی لیا جاتا تھا، مثلاً آیاتِ احکام کی تخریج کرائی جاتی تھی اور راست طور پر قرآن مجید سے کتنا حکم مستنبط ہوتا ہے، اس کی تفصیل معاون کتابوں سے طلبہ لکھتے تھے، بیان القرآن کا مطالعہ لازم تھا، متعدد عناوین پر طلبہ سے مقالے لکھوائے جاتے تھے، راقم الحروف سے متعلق مناہل العرفان تھی، دارالعلوم دیوبند کے نصاب کے مطابق تین مباحث پڑھائے اور ان سے متعلق نوٹس لکھوائے جاتے تھے؛ لیکن مشکل یہ پیش آئی کہ تفسیر کے لیے اچھے طلبہ نہیں ملتے تھے، اکثر اچھی استعداد والے یا تو افتاء پڑھتے ہیں یا عربی زبان وادب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ لکھتے ہیں:

          ”دورہٴ تفسیر فراغت کے بعد پڑھایا جاتا ہے؛ اس لیے جو طلبہ پڑھنا چاہتے بھی ہیں، ان کو ان کے سرپرست موقع نہیں دیتے، وہ کہتے ہیں کہ تم فارغ ہوگئے اب پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کام میں لگو! پھر ایسے کام میں لگتے ہیں کہ ازخود مطالعہ بھی نہیں کرتے“۔ (الخیرالکثیر،ص:۲۰)

دورہٴ تفسیر کا طریقہٴ کار:

          حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ لکھتے ہیں:

          ”دورہٴ تفسیر جس میں بیضاوی، ابن کثیر اور مظہری کی مدد سے قرآنِ کریم کی مکمل تفسیر پڑھائی جاتی ہے، یہ دورہٴ تفسیر کچھ کامیاب نہیں،اور ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ تفاسیر اتنی طویل ہیں کہ ان کے پانچ پانچ پارے بھی ایک ایک گھنٹہ میں کما حقہ نہیں پڑھائے جاسکتے، علاوہ ازیں ذی استعداد طلبہ ازخود ان کا مطالعہ کرسکتے ہیں، انھیں ایک سال لگانے کی کیا ضرورت ہے؟اگر دورہٴ حدیث عمدة القاری، فتح الملہم، بذل المجہود اور معارف السنن کی مدد سے پڑھایا جائے، یعنی متونِ حدیث پڑھانے کے بجائے یہ شروح پڑھائی جائیں تو دورہٴ حدیث کا رنگ بھی پھیکا پڑجائے گا“۔

          آگے لکھتے ہیں:

          ”دورہٴتفسیر میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ متن قرآن کریم کو بنیاد بناکر شیخ الحدیث اور اساتذئہ حدیث شریف کی طرح متخصصینِ تفسیر، قرآن کریم کا درس دیں، اور تمام تفاسیر سے استفادہ کریں اور خلاصہ بیان کریں تو دورئہ تفسیر کی شان پیدا ہوسکتی ہے“۔ (الخیرالکثیر،ص:۱۹)

          اس کے ساتھ اگر مشورے سے کچھ عملی کام کا اضافہ کرلیا جائے تو بہت بہتر رہے گا۔

قرآنِ کریم سے بے توجہی:

          دیکھا جائے تو ہمارے مدارس میں ترجمہٴ قرآن ہی پر توجہ ہے، سوم، چہارم اورپنجم عربی میں اردو ترجمہ اور جلالین کے ذریعہ عربی ترجمہ پڑھایا جاتا ہے اور بس، چند ہی مدارس میں تخصص ہے، اور وہ بھی غیرفعال، قرآنِ پاک کی حیثیت ایک مظلوم صحیفہ کی سی ہوگئی ہے، یہ کتاب جتنی توجہ کی مستحق ہے ہم اتنی توجہ نہیں دے رہے ہیں، ضرورت ہے کہ مدارس کے سرکردہ حضرات سرجوڑ کر بیٹھیں اور تفسیر قرآن کا ایک مفید نصاب اور موٴثر طریقہٴ کار اپنائیں!

          الحمدللہ! آج حفاظ کی کمی نہیں ہے، اگر کمی ہے تو قرآنِ کریم کو صحیح سمجھ کر عمل کرنے اور عام کرنے کی،اگر قرآنِ کریم پر ہم عمل پیرا رہے تو ہمیں ضروربالضرور عزت ورِفعت ملے گی، وباللہ التوفیق!

اصولِ تفسیر کی تدریس:

          ”اصولِ تفسیر“ میں تفسیر قرآن سے متعلق قواعد اور قوانین بیان کیے جاتے ہیں، اس موضوع کی دو کتابیں ہمارے یہاں داخل نصاب ہیں:

          (۱) الفوز الکبیر     (۲) مناہل العرفان

          الحمدللہ! دونوں کتابوں کو کئی بار پڑھانے کا موقع ملا، الفوز الکبیر بڑی مفید کتاب ہے، اس میں فہم قرآن میں پیش آنے والے مشکلات کو نہایت ہی اچھے انداز سے حل کیاگیا ہے، مختصرسی کتاب میں اتنے اصول وضوابط بیان کیے گئے ہیں کہ کوئی اور کتاب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، بہ قول حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی:

          ”یہ ایک قیمتی اور نادر بیاض ہے، اس کی قدر وہی لوگ جان سکتے ہیں، جن کو ان مشکلات سے واسطہ پڑا ہو، بعض بعض اصول جو شاہ صاحب نے اپنے ذوق ووجدان اور فہم قرآن کی بناء پر لکھ دیے ہیں، دوسری کتابوں کے سیکڑوں صفحات کے مطالعہ سے بھی حاصل نہیں ہوسکتے“۔ (الفرقان بریلی شاہ ولی اللہ صاحب نمبر،ص:۳۴۱)

          اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں صرف یہی ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے، تو بھی بے جا نہ ہوگا؛ اس لیے کہ تخصص فی التفسیر چند ہی مدارس میں ہے اور اس میں داخل ہونے والے طلبہ بھی بہت کم ہوتے ہیں۔

          پھر اس کتاب کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اسے سال کے اخیر میں پڑھاتے ہیں، اور وہ بھی روا روی میں اس طرح کہ طلبہ اس کو کما حقہ سمجھ نہیں پاتے، وہ سالانہ امتحان کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور جلالین پڑھانے کے بعد پڑھائی جاتی ہے؛ اس لیے اس کا کوئی فائدہ طالب علم پر مرتب نہیں ہوتا۔

          دارالعلوم دیوبند کے اربابِ انتظام نے اس پر توجہ دی اور ۱۴۱۷ھ سے سال کے شروع میں پڑھائی جانے لگی،اوراس کا گھنٹہ مستقل کردیاگیا؛ تاکہ طلبہ گہرائی کے ساتھ پڑھیں اور قرآنِ کریم کے اصول سے اچھی طرح واقف ہوں، دارالعلوم کا یہ اقدام بہت مفید ثابت ہوا۔ (الخیرالکثیر،ص:۲۴)

          دارالعلوم حیدرآباد میں جب یہ مجھ سے متعلق ہوئی تو میں نے ذمہ داروں سے اجازت لے کر سال کے شروع میں پڑھانا شروع کیا۔

          ”الفوزالکبیر“ کو سرسری طور پر نہ پڑھایا جائے، کسی بھی اصول کی کتاب کو سرسری طور پر پڑھانا فائدہ مند نہیں ہوتا، اہم ترین کام ان اصولوں کا اجراء ہے، اس میں سب سے بنیادی چیز قرآنی آیات کی زُمرہ بندی ہے، شاہ صاحب نے پانچ قسموں میں زمرہ بندی کی ہے: (۱) احکام (۲)جدل (۳) تذکیر نعمت (۴) تذکیر واقعات (۵) تذکیر موت وآخرت۔

          الفوزالکبیر اور جلالین ایک استاذ سے متعلق ہونی چاہیے،اس کے بغیر فائدہ کم ہوگا، جب الفوزالکبیر ختم ہوجائے، اور جلالین شروع ہوتو استاذ صاحب نشاندہی کریں کہ یہ فلاں قسم کی آیت ہے اور یہ فلاں قسم کی، پھر اس کے مطابق تشریح کریں، مثلاً احکام کی آیت میں بتائیں کہ اس میں یہ حکم بیان ہوا ہے، اس کا اتنا جزء قرآن میں ہے،اتنا حدیث اور اجماع میں وغیرہ۔

          جدل کی آیتوں میں بھی بتائے کہ مشرکین، منافقین، یہود ونصاریٰ کی فلاں خرابی اس جگہ ہے، اور فلاں خرابی یہاں، ان کے استدلال کا اسلوب قرآن نے کیا اختیار کیا ہے؟

          الفوز الکبیر میں اسباب نزول کی بحث بھی بہت اہم ہے، اس کو تھوڑا تھوڑا نہایت ہی امعان وگہرائی سے پڑھانا ضروری ہے۔

          بہتر یہ ہے کہ ہر فصل کے بعد طلبہ کا آموختہ سنا جائے اور ان سے سوالات کیے جائیں؛ تاکہ اندازہ ہوجائے کہ انھوں نے اچھی طرح سمجھا ہے یا نہیں۔

          الفوزالکبیر کے بعد تخصص فی التفسیر میں ”مناہل العرفان“ پڑھائی جاتی ہے، یہ علامہ محمد عبدالعظیم زرقانی کے محاضرات کا مجموعہ ہے، جو انھوں نے جامع ازہر میں طلبہ کے سامنے پیش کیے ہیں، یہ درسی کتاب کی طرح نہیں ہے، طول بیانی بہت زیادہ ہے، کبھی کبھی پڑھتے پڑھتے طبیعت اُکتاجاتی ہے؛ مگر بہت مفید ہے، اس کے تین مباحث دارالعلوم دیوبند میں پڑھائے جاتے ہیں۔

          اس کتاب کو اگر اساتذہ سبقاً سبقاً نہ پڑھائیں؛ بلکہ طالب علم خود پڑھے اور ہر مبحث کا خلاصہ لکھے اور پھر ان کو اپنی زبان سے بیان کرے تو اس کا فائدہ دو چند ہوسکتا ہے۔ اصولِ تفسیر پڑھانے والے اساتذہ کو الاتقان، البرہان اور التبیان وغیرہ کو مطالعہ میں رکھنا چاہیے۔

قیمتی نصیحت:

          میں نے اس موضوع پر تیاری کرنے سے پہلے حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ سے دریافت کیا کہ ”تفسیر قرآن کی تدریس“ سے متعلق کچھ بتادیجیے! انھوں نے تھوڑی دیر خاموش رہ کر جواب دیا کہ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اساتذہ نے اپنے اساتذہ سے جس طرح پڑھا ہے، اسی طرح پڑھائیں، جس استاذ کو جس کا اسلوب پسند ہو اسی کو اختیار کرے، پھر فرمایاکہ سبق میں مرجوح اقوال بیان نہ کیے جائیں اور راجح کی تعیین کے لیے اکابر کی تفسیر کو معیار بنایا جائے۔ استعداد سازی کے لیے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ طالب علم کتاب خود حل کرے،اور استاذ کے سامنے پڑھے، اگر صحیح ہوتو استاذ کہے: ”ہوں“ اور غلط ہوتو کہے ”اُوں ہوں“ اور درس گاہ میں طلبہ اتنے ہوں جہاں تک استاذ کی قمچی پہنچ جائے۔

مساجد میں درس قرآن:

          قرآن مجید کتاب قراء ت بھی ہے اور کتابِ ہدایت بھی؛ لیکن آج ہم نے اس کو صرف کتاب قراء ت بنالیا ہے؛ حالاں کہ علمائے امت نے قرآن پاک کا ترجمہ خصوصاً عوام کے لیے کیا ہے،جب زبان فارسی تھی تو سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے فارسی میں ترجمہ کیا، پھر ان کے صاحب زادوں نے اردو زبان میں ترجمہ کیا، حضرت شیخ الہند نے شاہ عبدالقادر صاحب کے ترجمہ کو اپنے زمانہ کی اردو زبان میں مہذب کیا،اس پر حضرت مولانا شبیراحمد عثمانی نے تفسیری حاشیہ لکھا، یہ سب عوام کے لیے کیاگیا؛ اس لیے عوام کو قرآن پاک کے یہ ترجمے پڑھنے چاہئیں، مسلمانوں کے مصائب وآلام اور ذلت وپستی کے من جملہ اسباب میں سے ایک قرآنِ پاک سے دوری ہے، حضرت شیخ الہند جب مالٹا سے دیوبند تشریف لائے تو علماء کے درمیان ارشادفرمایا:

          ”میں مالٹا کی جیل سے یہ سبق لے کر آیا ہوں کہ اپنی پوری توانائی دوکاموں میں صرف کرنا ہے، ایک تو قرآن کو گاؤں گاؤں، محلے محلے اور گھر گھر عام کرنا ہے کہ کم از کم اس کی لفظی تعلیم سے کوئی مرد وعورت، بچہ بوڑھا خالی نہ رہے،اور بڑی مسجدوں میں ”درسِ قرآن“ جاری کیے جائیں، جن میں آسان تفسیر قرآن عوام کو پڑھائی جائے، دوسرے آپس کی لڑائی جھگڑوں کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔“ (الخیرالکثیر،ص:۱۸)

          آج ضرورت ہے کہ ”درسِ قرآن“ کے ذریعہ عام مسلمانوں کو قرآنی مضامین سے واقف کرایا جائے، خاص طور سے جو آیتیں تذکیری پہلو رکھتی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاددہانی اور آفاق وانفس میں غور وتدبر والی آیتیں، انبیائے کرام کے واقعات، نافرمانوں کو سزا دیے جانے کے واقعات، عام نصیحت کی آیتیں، سبق آموز عبرت وموعظت سے عام مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے، دنیا کے فنا ہوجانے اور آخرت کے ہمیشہ باقی رہنے، قبر، حشر، جنت اور جہنم کی آیات کے معانی سے ان کو آگاہ کیا جائے، موت اوراس کے بعد جزا وسزا کا استحضار کرایا جائے۔

          اگر مساجد میں ”درسِ قرآن“ کی مجلسیں ہونے لگیں تو عوام علماء سے قریب ہوں گے، زندگی شریعت کے مطابق گزارنے کا حوصلہ پیدا ہوگا، قرآن پر امت متفق ہوگی،اس کی نورانیت سے معاشرہ روشن ومنور ہوگا۔

قرآن کے الفاظ:

          قرآنِ پاک میں الفاظ اکثر وہی ہیں جو ہم اردو میں بولتے ہیں، مثلاً سورہٴ فاتحہ میں: حمد، رب، عالَم، رحمن، رحیم، مالک، عبادت، ہدایت اور صراطِ مستقیم جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، صیغے اور انداز کا فرق ہے، اگر ہم عوام کو ہر ہر لفظ کا ترجمہ بتاکر روزانہ یا ہفتہ میں ایک دو آیت پڑھادیا کریں تو دھیرے دھیرے لوگ الفاظِ قرآنی سے قریب ہوجائیں گے، کہا جاتا ہے کہ قرآنِ پاک میں الفاظ دوہزار کے قریب استعمال ہوئے ہیں، ان میں تقریباً پندرہ سو الفاظ ہم روز مرہ بول چال میں استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے بقیہ الفاظ کو سیکھنا بھی کچھ بعید نہیں، کرنے سے کام آسان ہوتا ہے۔

درسِ قرآن کا انداز:

          ”درسِ قرآن“ کا اسلوب نہایت آسان اور سہل رکھا جائے، جس سے عام لوگ مانوس ہوں، الفاظ بھی بالکل عوامی استعمال کریں، موٹے موٹے عقائد، بدعات و رسوم سے اجتناب، معاشرہ کی اصلاح، اعمالِ صالحہ کی ترغیب، اچھے اخلاق کی تلقین اس انداز سے کی جائے جو قبولِ عام حاصل کرسکے۔

          آج کل لوگوں کی مصروفیت بہت بڑھ گئی ہے؛ اس لیے پندرہ بیس منٹ سے زیادہ وقت نہ لیا جائے، مشورہ سے ایسا وقت متعین کیا جائے جس میں سب کو سہولت ہو۔

          جو اردو جانتے ہوں ان کو اردو ترجمہ و تفسیر مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا جائے، مثلاً حضرت تھانوی کا ترجمہ، معارف القرآن، ترجمہ شیخ الہند، مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ کی ہدایت القرآن، مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی توضیح القرآن وغیرہ اور جو ہندی اور انگریزی جانتے ہوں، ان کو ایسے ترجمے مہیا کیے جائیں،اور تاکید کی جائے کہ قرآن میں اپنی رائے نہ چلائیں، ہاں جو باتیں سمجھ میں نہ آئیں، انھیں صحیح فکر کے حامل علماء سے پوچھیں، اس طرح عام مسلمان قرآن سے قریب ہوں گے، اور ان کی زندگی کے لیے قرآنِ پاک کتابِ ہدایت ثابت ہوگی۔

***

-----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 - 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی - اگست 2013ء